måndag 30 juni 2008

ایرانی شہری ایران کے حوالے/غلام حیدر رئیسانی ایرانی

ایرانی شہری ایران کے حوالے/غلام حیدر رئیسانی ایرانی
ایرانی شہری ایران کے حوالے/غلام حیدر رئیسانی ایرانی شہری ایران کے حوالے
شہزاد ملکبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
حکومت پاکستان نےپچیس مئی کو حیدر رئیسانی کو ایران لے جانے کی تیاریاں کی تھیں جس پر شدید احتجاج کیا گیا تھا سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں پاکستانی شہری غلام حیدر رئیسانی کو ایران کے حوالے کرنے کے بارے میں کہا ہے کہ غلام حیدر رئیسانی ایرانی باشندہ ہے اور وہ ایرانی پولیس کو فوجیوں کے اغواء کے مقدمے میں مطلوب ہے۔ انہوں نےاس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک تحریری بیان جمع کروایا ہے ۔ پی سی او کے تحت معرض وجود میں آنے والی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کہا کہ اس شخص کو ایران کے حوالے کرنے کا طریقہ کار غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی شخص کو دوسرے ملک کے حوالے کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں اور اُن کے ذریعے کسی بھی شخص کو دوسرے ملکوں کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ اٹارنی جنرل ملک قیوم نے عدالت سے استدعا کی کہ اس واقعہ کی چھان بین کے لیے مناسب وقت دیا جائے جس پر عدالت نے اس کی سماعت چودہ جولائی تک ملتوی کردی اور چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ وہ اس حوالے سے مکمل طور پر چھان بین کرکے ایک رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ واضح رہے کہ غلام حیدر رئیسانی کے وکیل ذوالفقار علی ملوکا نے عدالت میں پیش ہو کر الزام لگایا ہے کہ پاکستانی حکومت نے اپنی طرف سے ہی فیصلہ کرتے ہوئے ان کے موکل غلام حیدر رئیسانی جو پاکستانی شہری ہیں، کو ایران کے حوالے کر دیا ہے۔ غلام حیدر رئیسانی اغواء کے ایک مقدمے میں کوئٹہ جیل میں قید تھے اور ان کو ایران کے حوالے نہ کرنے کے بارے میں ان کے وکیل نے چودہ جون کو سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی تھی۔ واضح رہے کہ ایرانی حکومت کا مؤقف ہے کہ حیدر رئیسانی کا اصل نام عبدالحمید ریکی ہے جو ایرانی باشندہ ہے اور جند اللہ کے مختلف مقدمات میں ایرانی حکومت کو مطلوب ہے۔ پاکستانی فورسز نے غلام حیدر رئیسانی کو گزشتہ سال بیس اگست کو ایرانی صوبہ سیستان اور بلوچستان سے اکیس ایرانیوں کے اغواء کے الزام میں تربت کے علاقے مند سے سولہ ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا۔ حیدر رئیسانی کے ساتھ گرفتار ہونے والے سولہ افراد میں سے سات کو کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رہا کر دیا تھا جبکہ حیدر رئیسانی سمیت دیگر نو افراد ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں قید تھے۔ حکومت نے گزشتہ مہینے حیدر رئیسانی کو ایران لے جانے کی تیاریاں کی تھیں جس پر مختلف بلوچ تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے رد کردیا تھا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے۔ عدالت نے اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے انہیں ایران منتقل نہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ غلام حیدر کے وکیل صادق رئیسانی کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت نے غلط بیانی کر کے غلام حیدر رئیسانی کو ایرانی شہری ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کو مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں مگر درحقیقت وہ بلوچستان کے ایرانی سرحد کے قریبی علاقے ماشکیل کے رہائشی ہیں۔ ان کے پاس تمام دستاویزات اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا بھی سرٹیفکیٹ موجود ہے جس میں انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ یہاں کے رہائشی ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/06/080626_raeesani_kamalshah_rr.shtml
-----------------------------------------------------------------

Related links

پاکستان برخلاف حکم دادگاه و بر خلاف اعتراضات سازمانها و صدها فعال حقوق بشري غلام حيدر رئيساني را به ايران تحويل داد

هشدار نسبت به نقض حقوق بشر پيرامون نحوه حبس و نگهداري غلام حيدر رئيساني بلوچ در زندان کويته

In spite of the court sentence and the objection of several human rights organiszations and groups, the government of Pakistan "extradited Gholam Haidar Raisani Baloch to Islamic Republic of Iran

Warning against breaking human rights concerning imprisonment of Gholam Haidar Raisani Baloch in Quetta’s Jail

مشرقی بلوچستان ء غلام حیدررئیسانی ء -بلوچانی مظاھرہ و پریس کانفرس

URGENT ACTION: A Baloch Mother's Urgent plea to Govt of Pakistan: Please do not hand over my innocent son to Iranian Government

Take the necessary urgent action on prohibiting the extradition of a young pakistani-baloch to Iran

فوري: از استرداد يک جوان بلوچ پاکستاني به ايران جلوگيري کنيد

Inga kommentarer:

Skicka en kommentar