ایرانیوں پرسرحد پار کارروائی کاالزام
ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں مقیم افراد نے دعوٰی کیا ہے کہ ایران کے سرحدی محافظوں نے مبینہ طور پر پاکستانی
حدود میں گھس کر ایک شخص پر فائرنگ کی ہے اور اسے اپنے ساتھ ایرانی حدود میں لے گئے ہیں۔
مقامی پولیس حکام نے کہا ہے کہ ایرانی حکام سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جا رہا ہے۔
مکران ڈویژن کے شہر تربت کے سرحدی علاقے زعمران سے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ ایرانی فورسز نے بلوچستان کے سرحدی گاؤں زعمران کے علاقے کورتاگان میں ایک مکان میں گھس کر ملا سلیم ولد دین محمد نامی شخص پر فائرنگ کی ہے جس سے ملا سلیم زخمی ہو گیا۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ملا سلیم کو ایرانی فوجی زخمی حالت میں ساتھ لے گئے ہیں جہاں وہ دم توڑ گیا ہے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے بتایا ہے کہ ایرانی فورسز قریباً تیس سے چالیس کلومیٹر پاکستانی حدود میں گھس آئے تھے اور یہ کارروائی کر کے چلی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کے افسران ایرانی حکام سے رابطے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
تربت کے ضلعی پولیس افسر ایاز بلوچ نے بتایا ہے کہ جس علاقے میں یہ کارروائی ہوئی ہے وہ تبت شہر سے قریباً آٹھ سے دس گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اس واقعہ کی اطلاعات ان تک پہنچی ہیں جس پر کارروائی کی جا رہی ہے تاہم اب تک ایرانی حکام کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے ۔
یاد رہے اس سال جون میں سولہ ایرانی فوجیوں کے اغواء کے بعد سے ایرانی حکام یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ یہ کارروائی جند اللہ نامی تظیم نے کی ہے اور ایرانی اہلکاروں کو پاکستان کی جانب لے جایا گیا ہے لیکن پاکستانی حکام نے اس واقعہ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
مقامی پولیس حکام نے کہا ہے کہ ایرانی حکام سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جا رہا ہے۔
مکران ڈویژن کے شہر تربت کے سرحدی علاقے زعمران سے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ ایرانی فورسز نے بلوچستان کے سرحدی گاؤں زعمران کے علاقے کورتاگان میں ایک مکان میں گھس کر ملا سلیم ولد دین محمد نامی شخص پر فائرنگ کی ہے جس سے ملا سلیم زخمی ہو گیا۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ملا سلیم کو ایرانی فوجی زخمی حالت میں ساتھ لے گئے ہیں جہاں وہ دم توڑ گیا ہے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے بتایا ہے کہ ایرانی فورسز قریباً تیس سے چالیس کلومیٹر پاکستانی حدود میں گھس آئے تھے اور یہ کارروائی کر کے چلی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کے افسران ایرانی حکام سے رابطے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
تربت کے ضلعی پولیس افسر ایاز بلوچ نے بتایا ہے کہ جس علاقے میں یہ کارروائی ہوئی ہے وہ تبت شہر سے قریباً آٹھ سے دس گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اس واقعہ کی اطلاعات ان تک پہنچی ہیں جس پر کارروائی کی جا رہی ہے تاہم اب تک ایرانی حکام کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے ۔
یاد رہے اس سال جون میں سولہ ایرانی فوجیوں کے اغواء کے بعد سے ایرانی حکام یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ یہ کارروائی جند اللہ نامی تظیم نے کی ہے اور ایرانی اہلکاروں کو پاکستان کی جانب لے جایا گیا ہے لیکن پاکستانی حکام نے اس واقعہ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
Inga kommentarer:
Skicka en kommentar